تم شہرِ اماں کے رہنے والے، درد ہمارکیا جانو
ساحل کی ہوا، تم موج صبا! طوفان کا دھارا کیا جانو؟
رستہ ہی یہاں خود منزل ہے، ٹھوکر ہی یہاں اک حاصل ہے
اے سود و زیاں گننے والو! کس نے ہے پکارا کیا جانو؟
ان راہوں میں فردوس بریں، ان گلیوں میں جنت کے مکیں
ان تیکھے الجھے رستوں میں۔ ہیں کون صف آرا کیا جانو؟
سمجھے ہیں جسے گلزار سبھی، اک آگ ہے عصر حاضر کی
تمہید سے تم گزرے ہی نہیں، اب قصہ سارا کیا جانو؟
تم شہر اماں کے رہنے والے درد ہمارا کیا جانو
ساحل کی ہوا، تم موج صبا! طوفان کا دھارا کیا جانو؟